ڈاکٹر بلند اقبال کا تعلق بھی منٹو، عصمت چغتائی ، جوش ملیح آبادی اور مصطفی زیدی کے قبیلے سے ہے جن پر اردو کے روایتی ادیب اور قاری اس لیے پتھر پھینکتے رہے ہیں کیونکہ انہیں عوام کو آئینہ دکھانے ، پورے انسان کی کہانی سنانے اور مشرقی روایات کو چیلنج کرنے کی عادت تھی۔ ان مشرقی روایات میں جنسی روایات بھی شامل ہیں اور مذہبی روایات بھی۔
ایک نفسیات کے طالبعلم ہونے کے ناطے میں ان کے افسانے بڑے شوق سے پڑھتا ہوں کیونکہ وہ ایسے جنسی اور نفسیاتی مسائل کو موضوع بناتے ہیں جنہیں باقی ادیب چھوتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔ اُن کے افسانے 'یہ کیسی بے وفائی ہے' پڑھ کر عصمت چغتائی کے افسانے لحاف اور 'گدھ' کو پڑھ کر منٹو کے افسانے 'کالی شلوار' کی یاد تازہ ہوگئی۔ بلند اقبال نے اپنے افسانوں میں جنسی زیادتیوں کو بھی موضوع بنایا ہے چاہے وہ بچوں کے ساتھ ہو یا عورتوں کے ساتھ۔ وہ جانتے ہیں کہ جنسی مظالم کس طرح انسانی ذہن اور شخصیت کو مجروح کرتے ہیں۔
بلند اقبال کے افسانوں پر اعتراضات کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ خدا اور مذ�... See more
ڈاکٹر بلند اقبال کا تعلق بھی منٹو، عصمت چغتائی ، جوش ملیح آبادی اور مصطفی زیدی کے قبیلے سے ہے جن پر اردو کے روایتی ادیب اور قاری اس لیے پتھر پھینکتے رہے ہیں کیونکہ انہیں عوام کو آئینہ دکھانے ، پورے انسان کی کہانی سنانے اور مشرقی روایات کو چیلنج کرنے کی عادت تھی۔ ان مشرقی روایات میں جنسی روایات بھی شامل ہیں اور مذہبی روایات بھی۔
ایک نفسیات کے طالبعلم ہونے کے ناطے میں ان کے افسانے بڑے شوق سے پڑھتا ہوں کیونکہ وہ ایسے جنسی اور نفسیاتی مسائل کو موضوع بناتے ہیں جنہیں باقی ادیب چھوتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔ اُن کے افسانے 'یہ کیسی بے وفائی ہے' پڑھ کر عصمت چغتائی کے افسانے لحاف اور 'گدھ' کو پڑھ کر منٹو کے افسانے 'کالی شلوار' کی یاد تازہ ہوگئی۔ بلند اقبال نے اپنے افسانوں میں جنسی زیادتیوں کو بھی موضوع بنایا ہے چاہے وہ بچوں کے ساتھ ہو یا عورتوں کے ساتھ۔ وہ جانتے ہیں کہ جنسی مظالم کس طرح انسانی ذہن اور شخصیت کو مجروح کرتے ہیں۔
بلند اقبال کے افسانوں پر اعتراضات کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ خدا اور مذہب کے روایتی تصورات کو بھی چیلنج کرتے ہیں اور قارئین کو نئے انداز سے سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس چیلنج کا ایک تخلیقی اظہار اُن کے افسانے 'شکوہ' کے ایک فنکار کردار کے حوالے سے ہوتا ہے ۔ بلند اقبال لکھتے ہیں ' اُس رات وہ سفید بالوں والا بوڑھا آرٹسٹ اپنی جائےنماز پر دیر تک روتا رہا اور کسی بلبلاتے ہوئے بچے کی طرح اپنے خداوند تعالی سے گڑگڑا کر فریاد کرتا رہا اور پوچھتا رہا 'میری تخلیق تو آرٹ گیلری میں ایک بار بکتی ہے اور تمھاری تخلیق یہاں دنیا میں بار بار۔۔'جنسی اور مذہبی مسائل کے ساتھ بلند اقبال نے سماجی مسائل پر بھی قلم اٹھایا ہے جس کی ایک عمدہ مثال 'شاہ دولہ کے چوہے' ہیں ۔ بلند اقبال ہم سے پوچھتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اکیسویں صدی کے سائنسی دور میں بھی معصوم بچوں کو لوہے کی ایسی ٹوپیاں پہنا دی جاتی ہیں جن سے اُن کی ذہنی نشوونما رک جاتی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ظلم اور جبر شاہ دولہ کے چوہے تک محدود وہ ٹوپیاں دراصل سماجی و مذہبی روایات کا ایک استعارہ ہیں جن کے اندھے ایمان کی ٹوپیاں ماں باپ اپنے معصوم بچوں کو پہنا دیتے ہیں اور بچے ساری عمر منطقی، تخلیقی اور تنقیدی سوچ سے محروم ہو جاتے ہیں اور عمر بھر جسمانی طور پر بالغ ہونے کے باوجود ذہنی طور پر نابالغ رہ جاتے ہیں۔ (ڈاکٹر خالد سہیل)