اکشر دھام دہشت گرد واقعے کی تفتیش میں خفیہ ایجنسیوں کی مکمل ناکامی کے بعد اس معاملے کو گجرات پولیس کے حوالے کیا گیا جس نے آناً فاناً چھ لوگوں کو گرفتار کرکے اور شدید تعذیب دے کر انہیں اعتراف ناموں پر دستخط کرنے پر مجبور کر دیا ۔یہ وہی گجرات پولیس تھی جس کا کردارسنہ ۲۰۰۲ کے فسادات اور پھر مسلمانوں پر مسلسل مظالم اور خصوصی فرضی مڈبھیڑوں میں معصوم لوگوں کے قتل کی وجہ سے سخت مجروح تھا۔ بعد میں خود اسیپولیس کے بڑے بڑے افسران برسوں جیل کی ہوا کھاکر آئے ہیں۔ گرفتار ہونے والوں میں احمد آباد کے معروف سماجی کارکن مفتی عبدالقیوم بھی تھے جن کو اکشر دھام واقعے میں نچلی عدالتوں سے پھانسی کی سزا ہوئی تھی لیکن بالآخر سپریم کورٹ نے ان کو اور دوسرے ملزمین کو با عزت بری کردیا۔ یہ کتاب ان کی خود نوشت ہے جو بتاتی ہے کہ ہماری پولیس اور خفیہ نظام کتنے غلط ہاتھوں میں پڑ گیا ہے۔ پچھلے دو دہوں میں دہشت گردی کے نام پر اس ظالم نظام نے ہزاروں مسلم نوجوانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں اور ان کے گھر اجاڑے ہیں۔ انہی... See more
اکشر دھام دہشت گرد واقعے کی تفتیش میں خفیہ ایجنسیوں کی مکمل ناکامی کے بعد اس معاملے کو گجرات پولیس کے حوالے کیا گیا جس نے آناً فاناً چھ لوگوں کو گرفتار کرکے اور شدید تعذیب دے کر انہیں اعتراف ناموں پر دستخط کرنے پر مجبور کر دیا ۔یہ وہی گجرات پولیس تھی جس کا کردارسنہ ۲۰۰۲ کے فسادات اور پھر مسلمانوں پر مسلسل مظالم اور خصوصی فرضی مڈبھیڑوں میں معصوم لوگوں کے قتل کی وجہ سے سخت مجروح تھا۔ بعد میں خود اسیپولیس کے بڑے بڑے افسران برسوں جیل کی ہوا کھاکر آئے ہیں۔ گرفتار ہونے والوں میں احمد آباد کے معروف سماجی کارکن مفتی عبدالقیوم بھی تھے جن کو اکشر دھام واقعے میں نچلی عدالتوں سے پھانسی کی سزا ہوئی تھی لیکن بالآخر سپریم کورٹ نے ان کو اور دوسرے ملزمین کو با عزت بری کردیا۔ یہ کتاب ان کی خود نوشت ہے جو بتاتی ہے کہ ہماری پولیس اور خفیہ نظام کتنے غلط ہاتھوں میں پڑ گیا ہے۔ پچھلے دو دہوں میں دہشت گردی کے نام پر اس ظالم نظام نے ہزاروں مسلم نوجوانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں اور ان کے گھر اجاڑے ہیں۔ انہیں میں مفتی عبدالقیوم بھی ہیں جن کو گیارہ سال جیل میں رہنے کے بعد سپریم کورٹ سے انصاف ملا۔لیکن سب مظلومین اتنے خوش قسمت نہیں ہیں۔ یہ کتاب اس ظلم کو اجاگر کرتی ہے اور اس کے خلاف لڑائی کا ایک حصہ ہے۔