ناول 'کھوئے ہوئے صفحات' مشرق و مغرب دونوں اطراف کے معاشرے کی تاریخی بُنت پر ایک چھبتا ہوا سوال ہے جس کا جواب دینے کے غرض سے ڈاکٹر بلند اقبال یورپ سے ایشیا تک کا سفر کرتے ہیں اور پچھلی پوری صدی کے عرصے پر محیط بدترین سماجی ، نسلی اور مذہبی بربریت کے واقعات کا تجزیہ ایک بھرپور کہانی کی شکل میں کرتے ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے اس ناول کا سفر یورپ کے ان حصوں سے شروع ہوتا ہے جہاں دوسری جنگ عظیم کے المناک واقعات کے نتیجے میں لاکھوں بے گناہ لوگوں کی اموات ہوئی تھی اور اختتام کشمیر اور پاکستان کے اُن علاقوں پر ملتا ہے جہاں اِس موجودہ لمحےمیں بھی دن رات ظلم و زیادتیاں اور ہلاکتیں ہورہی ہیں۔ اُن کے لیے یہ بات قابل غور ہے کہ تاریخ کے ان واقعات میں چاہے وہ مغرب میں ہوئے ہو یا مشرق میں ، قدرت کی فطری تقسیم کے نتیجے میں مختلف عنوانات سے پیدا ہونے والے بے گناہ انسان جن کا کسی مخصوص علاقائی سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا ، وہ جو قطعی طور پر معصوم تھے اور جو کسی قوم، کسی مذہب، رنگ یا نسل کے خلاف کسی بھی منفی ... See more
ناول 'کھوئے ہوئے صفحات' مشرق و مغرب دونوں اطراف کے معاشرے کی تاریخی بُنت پر ایک چھبتا ہوا سوال ہے جس کا جواب دینے کے غرض سے ڈاکٹر بلند اقبال یورپ سے ایشیا تک کا سفر کرتے ہیں اور پچھلی پوری صدی کے عرصے پر محیط بدترین سماجی ، نسلی اور مذہبی بربریت کے واقعات کا تجزیہ ایک بھرپور کہانی کی شکل میں کرتے ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے اس ناول کا سفر یورپ کے ان حصوں سے شروع ہوتا ہے جہاں دوسری جنگ عظیم کے المناک واقعات کے نتیجے میں لاکھوں بے گناہ لوگوں کی اموات ہوئی تھی اور اختتام کشمیر اور پاکستان کے اُن علاقوں پر ملتا ہے جہاں اِس موجودہ لمحےمیں بھی دن رات ظلم و زیادتیاں اور ہلاکتیں ہورہی ہیں۔ اُن کے لیے یہ بات قابل غور ہے کہ تاریخ کے ان واقعات میں چاہے وہ مغرب میں ہوئے ہو یا مشرق میں ، قدرت کی فطری تقسیم کے نتیجے میں مختلف عنوانات سے پیدا ہونے والے بے گناہ انسان جن کا کسی مخصوص علاقائی سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا ، وہ جو قطعی طور پر معصوم تھے اور جو کسی قوم، کسی مذہب، رنگ یا نسل کے خلاف کسی بھی منفی خیال یا جذبے سے معمور بھی نہیں تھے ایسے سادے اور معصوم لاکھوں مرد ، عورت اور بچوں کو یا تو یورپ کی کئی ایک بستیوں میں زندہ انسانی ڈھانچوں کی شکل میں گیس چیمبروں میں پھینک دیا گیا اور کچرے کے ڈھیر کی طرح مشترکہ قبروں میں زندہ دفن کردیا گیا یا پھر جموں کشمیر کے گلی کوچوں اور مشرقی پاکستان کی مختلف بستیوں میں زنا بالجبر اور قتل و غارت گری کا نتیجہ بنا دیا گیا۔ بیسویں اور اکیسویں صدی کے ان تمام واقعات میں ہمیں ایک قدر بدقسمتی سے مشترکہ نظر آتی ہے کہ دنیا کے کسی بھی علاقے میں عموما مظلوم اور بے گناہ انسان ہی اپنے اپنے ادوار کے بورژوا طبقے کے سیاسی و سماجی انجن کو چلانے کے خاطر ایندھن بنے۔ ان انسانوں کا اس ایندھن کی گیلی لکڑیاں، گیس اور کوئلہ کا مقدر بننا صرف وہ فطری عمل تھا جس پر ان کا کوئی کنٹرول نہیں تھا کیونکہ فطرت نے انہیں ایک مخصوص رنگ، نسل اور مذہب کے ساتھ ان کی خواہش کے بغیر مختلف قومیتوں میں پیدا کردیا تھا۔ 'کھوئے ہوئے صفحات' میں بلند اقبال نے اسی کڑوے طنز اور دردناک چیخ کو رقم کیا ہے اور اس زخم کو کسی ماہر سرجن کی طرح نہ صرف چیرے لگا کر اپنے پڑھنے والے کو اس زخم کی گہرائی اور پھیلاو سے آگاہ کیا ہے بلکہ اس کی شدت کا اندازہ کرتے ہوئے رابندرناتھ ٹیگو، فیض احمد فیض اور پروین شاکر کی خوبصورت نظموں سے سجا کر ان کے دلوں کو اس زخم کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی دیا ہے ، مرہم لگانے کی کوشش کی ہے بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ اُن کے آنسو پوچھنے کی کوشش کی ہے۔